کشمیر پر ایک احسان کرو

[pullquote]حکو متِ پاکستان کی جانب سے مسئلہِ کشمیر کو عالمی سطح پر اُجاگر کرنے اور عالمی ضمیر کو جھنجوڑنے کے لئے ایک بیس رکنی پارلیمانی وفد دنیا کے مختلف مراکز میں بھیجا جا رہا ہے۔ کیا یہ پارلیمانی وفد مسئلہِ کشمیر پر عالمی ضمیر کو بیدار کرنے میں مددگار ثابت ہو گا جس کے اکثریت ارکان اپنی پارلیمنٹ میں شاذ و نادر ہی کسی موضوع پر لب کشائی کرتے ہیں۔ خارجہ پالیسی سے متعلق کتنے نکات ان ارکان پارلیمنٹ نے پارلیمنٹ میں اُجاگر کئے اور یہ ارکان کیا تعلیمی تجربہ و استعداد رکھتے ہیں کیا قوم کو اس سے آگاہ کیا جائے گا یا نہیں؟[/pullquote]

اس سے قطع نظر مجھے وزیر اعظم نواز شریف کے پچھلے دور اقتدار کا ایک واقعہ نقش ماضی میں اُبھر آیا یہ 1998ء کی بات ہے جب کہ اسی طرح کا ایک پارلیمانی وفد کشمیر پر بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کے لئے دنیا بھر میں بھیجا گیا۔میں ان دنوں جرمنی میں زیرِ تعلیم تھا کہ پاکستانی سفارتخانے سے اطلاع موصول ہوئی کہ رکن قومی اسمبلی انوار الحق رامے فرینکفرٹ قونصل خانے میں پاکستانی کمیونٹی سے مسئلہِ کشمیر پر خطاب کریں گے۔ چنانچہ میں پاکستانی طلباء کے ہمراہ اُنکا خطاب سننے جا پہنچا۔خطاب سن کر مجھے یہ سارا عمل وقت اور وسائل کا ضیاع محسوس ہوا اس لئے کہ سمندر پار پاکستانی مسئلہِ کشمیر کو بخوبی جانتے ہیں اور ضرورت تو اس امر کی تھی کہ جرمن رائے عامہ اور یونیورسٹیوں میں کشمیر پر پاکستانی مؤقف اُجاگر کیا جاتا لیکن یہاں صرف فوٹوسیشن ،ٹی اے/ڈی اے اور شاپنگ کی لمبی لسٹ کی تکمیل مقصود تھی۔

جدید دنیا میں سفارتکاری صرف خارجہ دفاتر اور پارلیمنٹ تک محدود نہیں بلکہ یونیورسٹیوں میں منعقدہ سیمینار اور مغربی میڈیا میں مؤثر انداز سے اپنا کیس اجاگر کرنے سے اپنے قومی مفادات پر اقوامِ عالم سفارتی کامیا بیاں حاصل کرتی ہیں۔ آج امریکہ ،یورپ کی اہم جامعات میں پاکستانی نژاد پروفیسر درس و تدریس کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ لاکھوں پاکستانی طلباء ان جامعات میں زیرِ تعلیم ہیں۔اگر نہرو یونیورسٹی دہلی کے طلباء کشمیر پر کانفرنس منعقد کرا کے اُسے بین الاقوامی توجہ دلا سکتے ہیں تو ہمارا دفتر خارجہ کیوں نہیں؟ لیکن جب دفتر خارجہ کے بابو سفارتخانوں میں اسی شان و شوکت سے براجمان ہوں جس سے ایک ڈپٹی کمشنر یا پولیس والا بیٹھا ہوتا ہے تو پھر پاکستانی ڈاکٹر، انجینئر،پرو فیسر اور کاروباری افراد کیسے پاکستان لابی میں ڈھل سکتے ہیں۔

آج امریکہ اور برطانیہ میں یہودی لابی اور ہندو لابی مؤثر کردار ادا کر رہی ہے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود کوئی پاکستانی لابی موجود نہیں۔ جدید سفارتکاری میں جامعات اور تھنک ٹینک اھم کردار ادا کرتے ہیں۔پا کستان میں کروڑوں روپے سالانہ سرکاری امداد سے چلنے والے تھنک ٹینک عالمی سطح پر کسی ایک بھی اخبار اور جریدے میں کشمیر کی صورتحال کو اُجاگر نہ کر سکے ۔ یہ نام نہاد دفاعی تجزیہ کار ریاست کے قومی مفاد سے زیادہ عسکری اداروں کی پی آر ترجمانی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ افغانستان کے جغرافیائی گہرائی کے تصور کے بھی یہی پرجوش حامی تھے۔اور پھر جنرل مشرف کے وقت افغانستان پر امریکی حملے کو پاکستان کے قومی مفادات کے لئے ناگزیر قرار دیتے ہیں۔ بھارت سے جنگی جنون میں مبتلا بھی رہتے ہیں اور امن مذاکرات میں ہمسائیوں سے امن کے علمبردار بھی یہی دفاعی تجزیہ کار ہیں۔ ان کرائے کے دانشوروں کی یہ استعداد ہی نہیں کہ وہ عالمی سطح پر ریاست کے مفادات کو اُجاگر کر سکیں۔


کرامت اللہ غوری کویت میں پاکستان کے سفیر تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ چیئرمین کشمیر کمیٹی مولانا فضل الرحمان کشمیر سے متعلق ایسے ہی ایک دورہ پر کویت آئے لیکن ان کی توجہ کشمیر سے زیادہ کویت کی زکوۃمنسٹری سے رہی جہاں وہ اپنے زیرِ تعمیر مدرسے کے لئے کوشاں رہے۔ کیا کشمیر پر ہماری غیر مؤثر سفارتکاری مولانا فضل الرحمان چیئرمین کشمیر کمیٹی کی کارکردگی پر سوالیہ نشان نہیں اُٹھا رہی؟ جو لوگ پاکستان کی تعلیم یافتہ اور باشعور رائے عامہ کو متاثر نہیں کر سکتے وہ عالمی سطح پر کون سا تیر ماریں گے۔ جدید دنیا میں پارلیمنٹ کے نمائندے جمہوریت کے علمبردار اور انسانی حقوق کے وکیل ہوتے ہیں۔لیکن جس پارلیمنٹ میں سابق آمر جنرل ضیاء الحق کے فرزندِ ارجمند اعجاز الحق شامل ہوں اُس کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے ہم بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کو اس وفد میں نمائندگی نہ دے کر ہم ثابت کر رہے ہیں کہ مسئلہِ کشمیر ایک انسانی المیہ نہیں بلکہ اسلام اور کفر کی جنگ ہے۔ اس ساری صورتحال میں مجھے رہ رہ کر یہ خیال آ رہا کہ حکومت پاکستان سے یہ درخواست کروں کہ کشمیر پر ایک احسان کرو کہ کشمیر پر کوئی احسان نہ کرو…!!!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے